۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
سویرا بتول 

حوزہ/ شہید کا خون کبھی راٸیگاں نہیں جاتا،شہید کا خون زمین پر نہیں بہتا بلکہ خونِ شہید کا ہر قطرہ سینکڑوں اور ہزاروں قطروں بلکہ خون کے سمندر میں تبدیل ہو کر معاشرے کے پیکر میں جاری ہوجاتا ہے۔

تحریر: سویرا بتول

حوزہ نیوز ایجنسی یہ دنیا اپنی تمام تر رعناٸیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ اور اسکے نیک اور اچھے انسانوں کے باوجود ایک گزر جانے کہ جگہ ہے نہ ٹھہرنے کی نہیں۔ ہم سب کو ایک دن جانا ہے اور راہ یہی ہے۔ دیر یا جلد فرق نہیں پڑتا۔ لیکن کیا بہتر نہیں کہ اس دنیاسےخوبصورتی کیساتھ جایا جاٸے یعنی اپنے لیے خود بہترین موت کا انتخاب کیا جاٸے؟

ہم جب یہ کہتے ہیں کہ کچھ شہید تاریخ میں ایسے بھی ملتے ہیں جنہیں اپنی شہادت کی تاریخ تک کا علم تھا تو بعض احباب یقین نہیں کرتے یا یوں کہتے ہیں کہ آپ مبالغہ آراٸی سے کام لے رہے ہیں یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ اگر انسان فقط مسلسل چالیس دن اپنے نفس کا محاسبہ کرے تو حکمت کے سر چشمے اُس کی زبان پر جاری ہوسکتے ہیں تو شہادت کی تاریخ کا بھی علم ہوسکتا ہے۔تاریخ میں ایسے بہت سارے شہدا ملتے ہیں جنہوں نے اپنے لیے نہ صرف بہترین ابدی حیات کاانتخاب کیا بلکہ بعد از شہادت اپنے اہل ِ خانہ کی حاجت رواٸی بھی کی۔ یہ شہدإ ہم جیسے تھے مگر خود کو عرفان کی اُس منازل تک پہنچایا کہ جہاں بشر کاٸنات کو تسخیر کر لیتا ہے۔

شہداء شہادت کےبعد بھی زمین پر اثرات دکھا سکتےہیں۔خداکی راہ میں شہادت کے بعد بھی نامہ اعمال کھلارہتا ہے اورنیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔شہید بعد از شہادت بھی حاجت رواٸی کرتے ہیں آج بھی بہت ساری شخصيات شہداء سے متوسل ہوتی ہیں اور شہداء انہیں جواب بھی دیتے ہیں۔ہمارے پاس بھی ایک شہید ہیں جنہوں نے اپنی شہادت کےبعد اپنی بیٹی کے رزلٹ کارڈ پر ساٸن کیے جو آج بھی شہدا کے میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔وہ دستخط بینک سے تصدیق کرواٸے گٸے تھے اور بینک نے تاٸید کی تھی کہ انہیں کے دستخط ہیں(شہید زنگی آبادی)ایک شہید کے حوالےسےملتا ہے کہ وہ زمین سے باتیں کیا کرتے تھے۔یہ کوٸی تعجب خیزبات نہیں ہے یہ اس زمانے کے بوذر اورسلیمان ہیں۔بس انسان ہر لمحے اپنے نفس کی طرف متوجہ رہے توباسانی کمالات انسانی کو درک کر سکتا ہے۔شہادت کامفہوم ہے کیا اور انسان کیسےاسے حاصل کرسکتا ہے آٸیے اشتر زماں شہیدحاج قاسم سلیمانی کی ایک تقریرسے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔شہید اپنی اس تقریرمیں فلسفہ شہادت کو یوں بیان کرتے ہیں :

اگر آپ کسی کو دیکھیں کہ اُس کی گفتار سے،کردارسے،اخلاق سے شہیدکی خوشبوآ رہی ہے تو جان لیں کہ وہ شہید ہوجاٸے گا۔ہمارے تمام شہدإ ان خصوصيات کے حامل تھے اِس سے پہلے کہ وہ شہید ہو جاٸیں وہ شہید رہے تھے۔کوٸی بھی شخص بغیر علم حاصل کیے عالم نہیں بن سکتا۔عَالِم ہونے کی شرط علم حاصل کرنا ہے اور شہید (شدن)ہونے کی شرط شہید (بودن)رہنا ہے۔اگر کوٸی شہید رہا ہے تو ہی شہید ہوگا۔اگر کسی سے شہید کی خوشبو نہ آٸے حتی وہ قتل کر دیا جاٸے شہید نہیں ہے۔شہید وہ ہے کہ جب اُسے دیکھیں، اُس کی بات سنیں،اُس کی محفل میں بیٹھیں،اُس کے ساتھ دوستانہ وقت گزارنے کے دواران اُس سے شہادت کی خوشبو آٸے۔

اگر کوٸی شہید نہیں تھا تو وہ شہادت نہیں پاٸے گا۔شہدإ پہلے سے شہید رہے تھے اس لیے کہ بعد میں شہید قرار پاٸیں۔شہید (شدن) ہونے کی شرط شہید (بودن)رہنا ہے۔ یعنی اپنی پوری زندگی کو دینِ اسلام کے لیے وقف رکھنا اور اس راہ میں ہر سطح کے کام کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دینا ہی شہید ہونے کے لیے شہید رہنے کا عملی مصداق ہے۔شہید کا خون کبھی راٸیگاں نہیں جاتا،شہید کا خون زمین پر نہیں بہتا بلکہ خونِ شہید کا ہر قطرہ سینکڑوں اور ہزاروں قطروں بلکہ خون کے سمندر میں تبدیل ہو کر معاشرے کے پیکر میں جاری ہوجاتا ہے۔گلے کو ذبح کیا جاسکتا ہے لیکن حلق سے نکلنے والی فریاد کو نہیں اور بالخصوص وہ فریاد جو کٹے ہوٸے گلے سے نکلتی ہے ہمیشہ کے لیے جاودانہ ہو جاتی ہے۔

افسوس کہ سب ساتھی چلے گٸے بس میں باقی رہ گیا
حسرت کہ جو دربدر پھرتا رہا وہ میں باقی رہ گیا
وہ راستے کا رہنما آیااور راستے پرچلنا سیکھا گیا
لیکن پھر بھی جونہ جا سکا اور یہاں رہ گیا وہ میں ہوں

تبصرہ ارسال

You are replying to: .